প্রচলিত হরতাল-অবরোধ সম্পর্কে ইসলামের বিধান কি?

ফতওয়া কোডঃ 207-বিপ্র-17-04-1445

প্রশ্নঃ

প্রচলিত হরতাল-অবরোধ সম্পর্কে ইসলামের বিধান কি? জানালে উপকৃত হব। জাযাকাল্লাহ খইরান।

সমাধানঃ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

প্রচলিত হরতাল-অবরোধে জানমালের অনেক ক্ষতি হয়। তাই এ ধরনের হরতাল-অবরোধ শরীয়তে বৈধ নয়।

সুত্রসমূহ

احسن الفتاوی: 2/128 حضرت حکیم الامت قدس سرہ اپنی تصانیف اور مواعظ و ملفوظات میں اس طریق کار پر بھی تنقید فرمائی ہے اور ایسی سیاسی تدبیروں کو ناجائز اور واجب الترک قرار دیا ہے جو ان مفاسد پر مشتمل ہوں … جب کوئی تد بیر تدابیر منصوصہ کے خلاف اختیار کی جادیگی اس کو تو ممنوع ہی کہا جا دیگا، خصوص جب کہ وہ فعل عبث یا مضر بھی ہو ، تو اس کی حرمت میں پھر کیا شبہ ہو سکتا ہے ؟ وہاں تو الضرورة تبيح المحظورات کا شبہ بھی نہیں ہو سکتا، مثا ہڑتالیں ہیں جلوس ہیں ان میں وقت کا ضائع ہو نارو پے کا صرف ہونا حاجت مند لوگوں کو تکلیف ہو نانمازوں کا ضائع ہو نا کھلے مفاسد ہیں تو یہ افعال کیسے جائز ہو سکتا ہے؟

احسن الفتاوی: 2/121 حضرت حکیم الامت قدس سرہ نے اپنی تصانیف اور مواعظ اور ملفوظات میں جابجا اس بات پر زور دیا ہے کہ اسلامی سیاست میں صرف مقصد کا نیک اور شریعت کے موافق ہونا کافی نہیں، بلکہ اس کے طریق کار اور اس کی تدبیروں کا بھی شریعت کے مطابق ہونا ضروری ہے، اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ وہ شریعت کے احکام کو پس پشت ڈالکر اور ان کے خلاف ورزی کر کر کے اسلامی حکومت قائم کریگا تو وہ ایسی خام خیالی میں مبتلا ہے جس کا نتیجہ محرومی کے سوا کچھ نہیں اگر اس طرح کوئی حکومت اس نے قائم کر بھی لی تو وہ اسلامی حکومت نہیں بلکہ اسلامی حکومت کا دھو کہ ہوگا۔

والله اعلم بالصواب

দারুল ইফতা, রহমানিয়া মাদরাসা সিরাজগঞ্জ, বাংলাদেশ।

Loading

Scroll to Top